مرکزی بنک ایسا بنک ہوتا ہے جو اپنے ملک کی حکومت اور تجارتی بنکوں کو مالیاتی خدمات فراہم کرتا ہے۔

مرکزی بنک کے بنیادی امور درج ذیل ہیں:

  • پیسے کی رسد اور شرح تبادلہ کے قوانین؛
  • قومی کرنسی نوٹوں کے اجراء کو کنٹرول کرنا؛
  • تجارتی بنکوں کو قرض کی فراہمی اور رقوم کی وصولی کے ساتھ ساتھ ان کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا؛
  • ملک کے قرضے کا انتظام؛
  • ملکی کرنسی کے عوض سونے کے ذخائر برقرار رکھنا؛
  • دیگر مرکزی بنکوں سے رابطہ رکھنا۔

مرکزی بنک چار بنیادی طریقوں سے زرِ مبادلہ کی مارکیٹ پر اثر انداز ہوتا ہے:

  • شرح منافع کی تبدیلی۔ مرکزی بنک شرح منافع میں اضافہ اس طریقہ سے کرتے ہیں کہ جس سے وہ اپنے ملک کی کرنسی کو سرمایہ کاروں کے لیے پُر کشش بنا سکیں، لیکن یہ تجارتی بنکوں کی زندگی کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ سرمایہ کاروں کے لیے اس ملک کی کرنسی میں سرمایہ محفوظ کرنا زیادہ نفع بخش ہوگا لیکن یہ تجارتی بنکوں کے لیے ایسی صورتحال پیدا کر دے گا جہاں مرکزی بنک سے قرض لینے پر ان کا زیادہ خرچ آئے گا، جس کی وجہ سے لوگوں کے لیے قرض لینے اور واپس جمع کروانے پر شرح سود میں خودکار طور پر اضافہ ہو جائے گا۔ منافع کی شرح کم کرنے سے یہ طریقہ کار الٹ ہو جائے گا۔
  • مالیاتی مارکیٹ کے آلات۔ یہ عام طور پر اوپن مارکیٹ میں سیکورٹیز کے ساتھ براہِ راست ترسیلاتِ زر ہوتے ہیں۔ مرکزی بنک کی طرف سے سیکورٹیز کی خریداری اس کے ذخائر میں اضافے کا سبب بنتی ہے جس کے باعث معیشت کے مختلف شعبوں کے اداروں کو دیئے جانے والے قرض کے حجم میں اضافہ ممکن ہوتا ہے یا تجارتی بنکوں کے قرض میں جو بعد ازاں ان اداروں کو قرض فراہم کرتے ہیں (جس کا انحصار کسی خاص ملک میں رابطے کے طریقہ کار پر ہوتا ہے)۔ اس طرح مرکزی بنک معیشت کی ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ سیکورٹیز کی فروخت سے بنک کے ذخائر کے ساتھ ساتھ بنک کی طرف سے قرض دیئے جانے کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں جو معیشت پر منفی اثرات مرتّب کرنے کا باعث بنتا ہے۔
  • ذخائر کی شرائط میں تبدیلی۔ مرکزی بنک ان شرائط میں تبدیلی کے ذریعے تجارتی بنکوں کے جاری کردہ قرضوں کے حجم کو محدود کر سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں موجود رقم کی مقدار میں تبدیل واقع ہوتی ہے۔
  • زرِ مبادلہ کے طریقہ کار۔ مرکزی بنک قومی کرنسی (میں مداخلت) کی قدر میں کمی/اضافہ کرنے یا اس کے برعکس کرنے اور اسے ایک مخصوص سطح پر برقرار رکھنے کے لیے فارن ایکسچینج مارکیٹ میں کام کر سکتے ہیں۔ یہ بین الاقوامی مارکیٹ میں قومی کرنسی داخل یا خارج کرنے کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ مزید برآں مرکزی بنک اپنے اثاثے دیگر مرکزی بنکوں میں رکھ سکتے ہیں اور براہِ راست کرنسی تبدیل کر سکتے ہیں۔

مرکزی بنک جیسا کہ فیڈرل ریزرو سسٹم (امریکہ)، یورپین سنٹرل بنک (یورپ)، بنک آف انگلینڈ (برطانیہ)، بنک آف جاپان (جاپان)، سوئس نیشنل بنک (سوئٹزرلینڈ)، بنک آف کینیڈا (کینیڈا)، ریزرو بنک آف آسٹریلیا (آسٹریلیا) اور ریزرو بنک آف نیوزی لینڈ (نیوزی لینڈ) دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور ترین بنک ہیں جو فاریکس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

فیڈرل ریزرو سسٹم ریاست ہائے متحدہ امریکہ

فیڈرل ریزرو سسٹم ریاست ہائے متحدہ امریکہ

امریکہ میں فیڈرل ریزرو سسٹم (FRS یا FED) 1913 میں قائم کیا گیا تھا اور یہ امریکہ کے مرکزی بنک کا کام سر انجام دیتا ہے۔ اگرچہ سرمایہ ایک خاص حیثیت کے ساتھ نجی شیئر ہولڈرز کی ملکیت ہے لیکن ریاست بنک پر بنیادی اثر ورسوخ رکھتی ہے۔
FED دنیا کا سب سے طاقتور بنک ہے۔ چونکہ امریکی ڈالر پوری دنیا کی ریزرو کرنسی ہے لہٰذا FED بہت سی کرنسیوں کی قدر پر بہت زیادہ اثر رکھتا ہے۔
کمیٹی: فیڈرل اوپن مارکیٹ کمیٹی (FOMC)، فیڈرل ریزرو کونسل کے سات رہنماؤں اور 12علاقائی ریزرو بنکوں کے پانچ صدور پر مشتمل ہے۔ کمیٹی شرح منافع مقرر کرتی ہے۔
مقاصد: قیمتوں کا استحکام اور امریکی معیشت کی ترقی۔
اجلاس: سال میں آٹھ مرتبہ

یورپین سنٹرل بنک

یورپین سنٹرل بنک

یورپین سنٹرل بنک (ECB) 1998 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ یورپین مانیٹری انسٹیٹیوٹ (EMI) کے بعد یورپی زون کی مرکزی مالیتی اتھارٹی ہے۔ EMI نے یورپی کرنسی کی گردش کے تعارف کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
کمیٹی: ECB کی گورننگ کونسل کے چھ ارکان اور یورپی زون کے ممالک کے 12 قومی مرکزی بنکوں کے سربراہان۔ یہ مالیاتی پالیسی کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں۔
مقاصد: قیمتوں کا استحکام، افراطِ زر میں سالانہ اضافے کو 2 فیصد سے کم پر برقرار رکھنا۔ یہ بنک یورپی زون کے برآمدات پر انحصار کی وجہ سے یورپی کرنسی کی بڑھتی ہوئی مالیت کو روکنے کے لیے کوشاں ہے۔
اجلاس: ہر 2 ہفتے بعد ایک مرتبہ۔ تاہم مالیتی پالیسیوں پر ایک سال میں 11 اجلاس منعقد کیئے جاتے ہیں جن کے بعد پریس کانفرنس بھی کی جاتی ہے۔

بنک آف انگلینڈ

بنک آف انگلینڈ

بنک آف انگلینڈ (BOE) 1694 میں ایک نجی بنک کے طور پر قائم کیا گیا تھا لیکن 1946 میں قومی تحویل میں لیئے جانے کے بعد اس نے برطانیہ کے مرکزی بنک کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ بنک آف انگلینڈ کو دنیا کے طاقتور ترین مرکزی بنکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
کمیٹی: بنک آف انگلینڈ کا سربراہ، دو ڈپٹی، دو ایگزیکٹو اور چار بیرونی ماہرین۔ یہ کمیٹی مالیاتی پالیسی کی ذمہ دار ہے۔
مقاصد: مالیتی اور مالی استحکام میں معاونت اور افراطِ زر کو 2 فیصد کی سطح پر رکھنا۔ درحقیقت اگر افراطِ زر اس سطح سے کم ہو گی تو بنک اسے بڑھا کر 2 فیصد کی سطح پر لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گا۔
اجلاس: مہینے میں ایک مرتبہ

بنک آف جاپان

بنک آف جاپان

بنک آف جاپان (BOJ) 1873 میں لاء آف نیشنل بنکس پر اور امریکہ کے 1863 کے قانون سے متاثر ہو کر قائم کیا گیا تھا۔ یہ مشترکہ اسٹاک کمپنی کی حیثیت رکھتا ہے جو کہ بنک کی بنیادی خصوصیت ہے۔ جاپانی حکومت 55 فیصد سرمائے کی مالک ہے۔ بقیہ 45 فیصد سرمایہ انشورنس کمپنیوں، مالیاتی اداروں اور دیگر سرمایہ کاروں کی ملکیت ہے۔
کمیٹی: بنک کا سربراہ، اس کے دو ڈپٹی اور چھ دیگر ارکان۔ یہ کمیٹی مالیاتی پالیسی کی ذمہ دار ہے۔
مقاصد: جاپان میں قیمتوں اور مالیاتی استحکام میں معاونت کرنا۔ ECB کی طرح BOJ بھی ملکی برآمدات پر انحصار کی وجہ سے قومی کرنسی کی قدر میں اضافے کو روکنے کے لیے کوشاں ہے۔
اجلاس: مہینے میں ایک یا دو مرتبہ۔

سوئس نیشنل بنک

سوئس نیشنل بنک

سوئس نیشنل بنک (SNB) 1907 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کے دو ہیڈ کوارٹرز ہیں: ایک برن میں اور دوسرا زیورک میں۔
کمیٹی: بنک کا سربراہ، اس کا ڈپٹی اور ایک رکن۔ یہ کمیٹی شرح منافع پر فیصلے کرتی ہے۔ دیگر مرکزی بنکوں کے برعکس SNB صرف شرح منافع کی حد مقرر کرتا ہے۔
مقاصد: قیمتوں کے استحکام کو یقینی بنانا اور (ملکی برآمدات پر انحصار کی وجہ سے) قومی کرنسی کی حد سے زیادہ ترقی کو روکنا۔
اجلاس: تین ماہ میں ایک مرتبہ۔

بنک آف کینیڈا

بنک آف کینیڈا

بنک آف کینیڈا (BOC) نے 1935 میں کام کا آغاز کیا۔ بنک کا ہیڈ کوارٹر اوٹاوا میں واقع ہے۔
کمیٹی: بنک کا سربراہ اور پانچ ڈپٹی۔ یہ کمیٹی مالیاتی پالیسی پر فیصلے کرتی ہے۔
مقاصد: کرنسی کی سالمیت اور قدر کو برقرار رکھنا اور افراطِ زر کو 1 فیصد سے 3 فیصد پر رکھنا۔
اجلاس: سال میں آٹھ مرتبہ

ریزرو بنک آف آسٹریلیا

ریزرو بنک آف آسٹریلیا

ریزرو بنک آف آسٹریلیا (RBA)، کامن ویلتھ بنک آف آسٹریلیا سے حقوق حاصل کرنے کے بعد 1960 سے باقاعدہ طور پر ایک مرکزی بنک ہے۔
کمیٹی: بنک کا سربراہ، اس کا ڈپٹی، وزیرِ خزانہ اور حکومت کی طرف سے مقرر کردہ چھ خود مختار ارکان۔ یہ کمیٹی مالیاتی پالیسی کی ذمہ دار ہے۔
مقاصد: مالیاتی استحکام اور اقتصادی ترقی کو یقینی بنانا۔ ملک بھر میں مکمل روزگار اور بڑھتی ہوئی آمدنی کو برقرار رکھنا اور افراطِ زر کو 2 فیصد سے 3 فیصد تک برقرار رکھنا۔
اجلاس: مہینے میں ایک مرتبہ، ماسوائے جنوری۔

ریزرو بنک آف نیوزی لینڈ

ریزرو بنک آف نیوزی لینڈ

ریزرو بنک آف نیوزی لینڈ (RBNZ) 1934 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ مکمل طور پر ریاست کی ملکیت ہے۔ بنک کی بنیادی خصوصیت اہداف کی تکمیل پر سخت کنٹرول ہے۔ ناکامی کی صورت میں بنک کے سربراہ کو تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔
کمیٹی: مالیاتی پالیسی پر حتمی فیصلے بنک کا سربراہ کرتا ہے۔
مقاصد: قیمتوں، شرح منافع، شرح تبادلہ اور معیشت کے استحکام کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ افراطِ زر کو 1.5 فیصد پر رکھنا۔
اجلاس: سال میں آٹھ مرتبہ۔